The دعا تک دین کو بدلتی ہے Diaries

سورۃالمومن:۴۰)یعنی دعا ہمیں اس یقین کے ساتھ مانگنی چاہیے کہ قبول ہوگی اور ہمارا پروردگار ہمیں ۷۰ماؤں سے بر کر ہم سے محبت کرتا ہے ہم اپنے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہمارا رب ہماری ماضی حال مستقبل سے خوب واقف ہے بعض دعا ئیں قبول نہیں ہوتی اس مطلب یہ ہرگز نہیں کے وہ ہمیں پسند نہیں کرتا بللکہ وہ ہمیں ہمارے طلب سے زیادہ بہتر دینا چاہتا ہے.ایک مومن کے تمام طاقتوں وسائل کا حا صل توکل اللہ ہے قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے کے:آپ فرمادیجیے !مجھے اللہ کافی ہے ,توکل کرنے والے اس پر توکل کرتے ہیں (الزمر:۳۷) انسان اپنی نادانی کی وجہ سے جلد بازی کرنے لگتا ہے اور اپنا وجود کو سوچ سمجھ سے خالی کرنے لگتا ہے.لیکن اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لئے توبہ کا دوازہ کھول رکھا ہے اور جس سے بندہ توبہ کر کے اپنا نام نیک لوگوں میں شامل کرسکتا ہے.

دوسرا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس حدیث میں عمر کے بڑھنے سے عمر میں برکت ہونا اور زیادہ نیک اعمال کرنے کی توفیق ملنا ہے، یعنی اس کی عمر کے اوقات ضائع نہیں ہوتے؛ اس لیے وہ تھوڑے سے عرصہ میں اتنے سارے کام اور اعمال کرلیتا ہے جو دوسرے لوگ بہت زیادہ وقت میں بھی نہیں کرپاتے ہیں۔(جیسا کہ بہت سارے اولیاء اللہ کی زندگی کے مشاہدہ سے یہ بات ثابت بھی ہوچکی ہے۔)

تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے مکمل اختیار سے ہی کوئی کام کرتا ہے تو جیسے وہ دنیاوی معاملات میں اپنے اختیارات کو استعمال کرتا ہے، تو بالکل اسی طرح آخرت کے معاملات میں بھی مکمل صاحب اختیار ہوتا ہے، بلکہ آخرت کا راستہ تو دنیا کے بہت سے راستوں سے بالکل واضح ہے؛ کیونکہ آخرت کے راستوں کو واضح کرنے والا اللہ تعالی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی آخرت کے راستے کو واضح فرمایا ہے، اور اسی کا لازمی تقاضا ہے کہ آخرت کا راستہ دنیاوی راستے سے زیادہ واضح ہو، لیکن اس کے باوجود بھی انسان دنیاوی معاملات میں خوب محنت اور تگ و دو کرتا ہے حالانکہ اس کے نتائج کی کوئی ضمانت بھی نہیں ہوتی، تاہم دوسری طرف آخرت کے معاملات میں بالکل لا پروا بن جاتا ہے حالانکہ آخرت کے راستے کے نتائج معلوم بھی ہیں اور ان کی ضمانت بھی ہے؛ کیونکہ یہ نتائج اللہ تعالی کے وعدے کے مطابق ملیں گے، اس لیے کہ اللہ تعالی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔

سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کی سب سے پہلی سورت کی اس عظیم آیت میں اللہ تعالی اپنی عبادت کا حکم دے رہا...

اسی طرح یہ بھی دعا کی شرط ہے کہ: گناہ اور قطع رحمی کی دعا نہ کی جائے اور دعا میں حد سے تجاوز نہ ہو ۔ دعا کی قبولیت کے اسباب میں  یہ شامل ہے کہ اللہ تعالی کے اسما و صفات کے ذریعے اللہ تعالی کی خوب حمد و ثنا بیان کی جائے ، دعا تک دین کو بدلتی ہے اور نبی ﷺ پر درود و سلام پڑھیں، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا:

تقدیر میں تبدیلیاں رد وبدل بدلاٶ ہوتا ضرور ہے لیکن ہر لکھی ہوئی ہر تقدیر نہیں بدلتی بلکہ بعض تقدیر دعائيں اور اعمال صالحہ کی بنا پر  بدل جاتی ہے تو اس سے معلوم ہوا تقدیر کی بھی قسمیں ہیں جو ایک میں تبدیلی ہو سکتی ہے اور ایک میں نہیں 

تو ایسی صورت میں مسلمان اپنا پہلا قدم ہی صحیح راستے اور سمت میں رکھتے ہوئے ایک لمحہ بھی عمل کے بغیر نہیں گزارتا یا اس لمحے میں ایسا کام کرتا ہے جو اللہ تعالی کی طرف لے جانے والا ہے، اور ساتھ ساتھ اللہ تعالی کے سامنے عاجزی، انکساری بھی اپناتا ہے، اور اس چیز کا بھر پور ادراک رکھتا ہے کہ اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہی آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں، اس لیے ہمیشہ اور دائمی طور پر اسی کے سامنے اپنی فقیری رکھتا ہے، ہمیشہ متمنی رہتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی توفیق اور اسی کی طرف سے ملنے والی صحیح سمت کا طلب گار ہے۔

امریکہ نے انخلاء میں لیت و لعل سے کام لیا تو اُسے پیشرفتہ فوجی مقابلے کا سامنا کرنا پڑیگا، عراقی مزاحمتی محاذ

دوبارہ تعیین کریں لاگ ان کرنے کے واپس ہوں لاگ ان کرنے کے واپس ہوں ہمارے بارے میں

تو کیا انسان کے لئے یہ مناسب ہو گا کہ جب کوئی گمراہی والا عمل کر لے تو جبری [تقدیر کو جبری قرار دینے والا]بن جائے، اور جب کوئی نیکی کرنے لگے تو قدری [تقدیر کا سرے سے انکار کرنے والا]بن جائے!

اللہ کی جانب متوجہ رہو، ہمیشہ صرف اسی سے دعائیں مانگو، کیونکہ اس سے مانگنے والا  کبھی نا مراد نہیں ہوا، اس سے امید رکھنے والا کبھی محروم نہیں رہا۔

اور حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی تقدیر کے متعلق فرماتے ہیں کہ 

اس کے بعد اہل سنت و الجماعت یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی کی مشیئت اللہ تعالی کی حکمت کے تابع ہے، اہل سنت والجماعت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی کی مشیئت مطلق اور حکمت سے باہر نہیں ہے، بلکہ وہ حکمت کے تابع ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کے اسمائے گرامی میں الحکیم بھی شامل ہے، اور حکیم اسے کہتے ہیں جو تمام امور کو کونی و شرعی ، عملی و تخلیقی ہر اعتبار سے حکمت بھرے انداز میں مکمل کرتا ہے، تو اللہ تعالی اپنی حکمت کے تحت جس متلاشی حق کے لئے چاہتا ہے ہدایت لکھ دیتا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی جانتا ہے کہ وہ حق کا متلاشی ہے اور اس کا دل استقامت پر قائم ہے۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *